ناول: روشنی کا سفر قسط 2 (آخری قسط): مکمل روشنی
"شاید کل سے کچھ بدل جائے۔"
اور وہ نہیں جانتی تھی، واقعی کل سے اس کی زندگی بدلنے والی تھی۔
اگلی صبح جب حرا اٹھی، تو دل میں کچھ الگ سا محسوس ہو رہا تھا۔ کمرے کی دیواریں ویسی ہی تھیں، مگر کھڑکی… وہ کھڑکی جیسے اُس کی طرف اشارہ کر رہی ہو۔ رات کے خواب اور نیلی راہداری کا منظر ابھی بھی ذہن میں تازہ تھا۔
اسکول میں سارا دن حرا کچھ گم سم رہی۔ ہر بات میں اُسے اندر سے ایک آواز سنائی دیتی:
"تمہاری روشنی تمہارے اندر ہے۔ بس اُسے جگانا ہے۔"
اُس دن کلاس میں ایک اعلان ہوا — اگلے ہفتے "اسپیکنگ کمپیٹیشن" ہونے والا تھا۔ جس میں اسکول بھر سے بچے حصہ لے سکتے تھے۔
رمشا نے خوشی سے کہا، "حرا! تمہیں ضرور حصہ لینا چاہیے، تم تو بہت اچھا لکھتی ہو!"
حرا کے دل میں کچھ چمکا، مگر فوراً خوف نے اُسے گھیر لیا۔
"میں…؟ سب کے سامنے بولنا؟ نہیں، میں نہیں کر سکتی۔"
رمشا نے حوصلہ دیا، "تم صرف ایک بار خود پر یقین کر لو، تمہیں کسی اور کے یقین کی ضرورت نہیں رہے گی۔"
رات کو حرا نے کھڑکی کھولی — نیلی روشنی نے اُسے خوش آمدید کہا۔
وہ راہداری میں داخل ہوئی، اور سیدھا اُس سنہرے دروازے کے سامنے پہنچی۔ اُس نے کنجی نکالی، ہاتھ ہولے سے دروازے پر رکھا، مگر دروازہ ابھی بھی خاموش تھا۔
پھر اچانک اُس کے اندر سے آواز آئی:
"تم بولنا چاہتی ہو، مگر خود سے چھپ رہی ہو۔ سب سے پہلے، خود کو قبول کرو۔"
اُسی لمحے آئینہ نمودار ہوا۔ اس بار اُس میں صرف حرا کا چہرہ نہیں تھا — اُس میں اُس کے سارے لمحے تھے۔ جب وہ خوفزدہ ہوئی، جب اس نے بولنا چاہا مگر خاموش رہی، جب اس نے خوابوں کو دل میں دفن کیا۔
آنسو خودبخود اُس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
"میں نے خود کو کبھی موقع نہیں دیا۔" اُس نے پہلی بار خود سے سچ بولا۔
پھر اُس نے آنکھیں بند کیں، اور دل سے ایک دعا کی:
"خدا! مجھے میری روشنی دکھا دے۔"
جب اُس نے آنکھیں کھولیں، دروازے پر ہلکی سی چمک پھیل چکی تھی۔ اُس نے کنجی لگائی، اور دروازہ آہستہ سے کھل گیا۔
اندر وہی روشنی تھی — مگر اس بار اُس کی اپنی تھی۔ وہ منظر نہیں، احساس تھا۔ ایک میدان تھا، جہاں حرا کے جیسے سینکڑوں لوگ کھڑے تھے — سب کے ہاتھ میں روشنی کے چراغ، سب خاموشی سے سن رہے تھے — اور درمیان میں حرا کھڑی تھی، مائیک کے سامنے، اپنی بات کہتی ہوئی۔
"خوف صرف آواز چھینتا ہے، خواب نہیں۔"
"خاموشی صرف زبان روکتی ہے، دل نہیں۔"
"میں حرا ہوں — اور میں اپنی روشنی کے ساتھ آئی ہوں۔"
اُسی لمحے وہ روشنی اُس کے دل میں سما گئی۔ نیلی راہداری، آئینہ، سب کچھ آہستہ آہستہ غائب ہونے لگا — مگر اُس کے اندر ایک نیا یقین جاگ چکا تھا۔
اگلی صبح، اسکول میں اُس نے اسپیکنگ مقابلے کا فارم بھرا۔ سب حیران تھے۔
مقابلے کے دن، جب اُس کا نام پکارا گیا، تو دل دھڑکا ضرور، مگر اُس کی آنکھوں میں اب ڈر نہیں، صرف روشنی تھی۔
وہ مائیک کے سامنے آئی، اور بولی:
"لوگ کہتے ہیں خواب دیکھنا فضول ہے… مگر میں کہتی ہوں، خواب ہی دل کو زندہ رکھتے ہیں۔"
ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔
اسی لمحے، اُس نے اندر سے محسوس کیا — اُس کا "روشنی کا سفر" مکمل ہو چکا ہے۔
اب وہ صرف ایک خواب دیکھنے والی لڑکی نہیں تھی…
بلکہ وہ لڑکی تھی جس نے خواب کو آواز میں بدل دیا تھا۔
---
اختتام
"روشنی کا سفر" مکمل ہوا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں