"اردوناول کی دنیا – جہاں ہر کردار آپ کی روح کو چھو جائے"
رات کے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ پورے محلے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، بس کہیں کہیں کتوں کے بھونکنے کی آواز آ رہی تھی۔ مگر ایک کھڑکی ایسی تھی جہاں سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔ یہ کھڑکی حرا کے کمرے کی تھی — وہی سولہ سالہ لڑکی جو اکثر خوابوں میں گم رہتی تھی۔
حرا کا چہرہ تکئے پر نہیں، بلکہ اپنی ڈائری پر جھکا ہوا تھا۔
"لوگ کہتے ہیں خواب دیکھنا فضول ہے،" وہ ڈائری میں لکھ رہی تھی، "مگر مجھے لگتا ہے، خواب ہی وہ واحد چیز ہیں جو دل کو زندہ رکھتے ہیں۔"
اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
"حرا؟" — امی کی آواز تھی۔
"جی امی، بس پانچ منٹ میں سوتی ہوں۔"
امی نے دروازہ کھولا، اور نرمی سے کہا:
"بیٹا کل اسکول ہے، رات بہت ہو گئی ہے۔ نیند پوری نہ ہو تو تم سارا دن الجھی الجھی رہتی ہو۔"
حرا نے ہلکا سا مسکرا کر سر ہلایا۔ امی نے اسے پیار سے دیکھا اور دروازہ بند کر کے چلی گئیں۔
مگر حرا کا ذہن تو کہیں اور تھا۔ وہ کسی عام لڑکی کی طرح صرف اسکول اور ٹیوشن کے بیچ محدود نہیں تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ ایک دن دنیا کے سب سے بڑے اسٹیج پر کھڑی ہو، مائیک تھامے، اور ہزاروں لوگ اس کے الفاظ سنیں۔
"میں اسپیکر بننا چاہتی ہوں۔" وہ خود سے بولی۔
مگر اس کے خوابوں کی راہ میں صرف ایک رکاوٹ تھی — خاموشی۔
اس کی طبیعت میں جھجک، ڈر، اور سب سے زیادہ — گھر والوں کا خیال۔
"تم جیسے بچے صرف پڑھائی پر دھیان دو، یہ شوق بعد میں پالنا۔"
یہ جملہ اسے روز کوئی نہ کوئی کہہ دیتا تھا۔
مگر حرا جانتی تھی، کچھ آوازیں ایسی ہوتی ہیں جو دل کے اندر چپکے سے جنم لیتی ہیں، اور اگر انہیں دبایا جائے تو وہ ایک دن چیخ بن جاتی ہیں۔
اس رات حرا نے ڈائری بند کی، اور کھڑکی کے قریب جا کر باہر جھانکا۔ چاندنی بہت ہلکی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔
"شاید کل سے کچھ بدل جائے۔"
اور وہ نہیں جانتی تھی، واقعی کل سے اس کی زندگی بدلنے والی تھی۔
---
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں