ناول کا عنوان: "آخری خط"

 حصہ 1: پرانی الماری


حنا نے الماری کے پرانے دراز کو کھولا تو ایک زرد لفافہ اس کے ہاتھ لگا۔ کاغذ پر وقت کے نشانات واضح تھے۔ لفافے پر صرف ایک لفظ لکھا تھا: "بیٹی کے لیے"۔


یہ گھر اسے نانی اماں سے ورثے میں ملا تھا۔ وہ پہلی بار گرمیوں کی چھٹیوں میں یہاں رہنے آئی تھی۔ پچھلے کمرے کی یہ الماری برسوں سے بند پڑی تھی۔


لفافہ کھولا تو اندر ایک خط تھا:


> "میری پیاری بیٹی،

اگر تم یہ خط پڑھ رہی ہو، تو شاید میں اس دنیا میں نہیں رہی۔ تمہارے لیے میرے دل میں ایک راز چھپا ہے۔ ایک ایسا راز جو برسوں میرے دل پر بوجھ بنا رہا۔ تم میری اپنی بیٹی نہیں ہو۔۔۔ لیکن تم میرے دل کی سب سے قریب ہو۔

تمہیں میں نے اس وقت گود لیا تھا جب تم صرف دو دن کی تھیں، ایک سرد رات میں میرے دروازے پر تمہیں چھوڑا گیا۔ تمہارے ساتھ صرف ایک کاغذ تھا جس پر لکھا تھا: ‘میری بیٹی کو محبت دینا۔’

میں نے تمہیں اپنی جان سے بڑھ کر پالا، مگر اب وقت ہے کہ تم اپنی اصل ماں کی تلاش کرو۔ اس خط کے ساتھ ایک لاکٹ ہے، جس میں تمہاری ماں کی تصویر ہے۔ اسے دل سے لگا کر تلاش شروع کرو۔۔۔ محبت تمہیں راستہ دکھائے گی۔

محبت کے ساتھ،

تمہاری نانی اماں"




حنا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ جسے اپنی ماں سمجھتی آئی، وہ اس کی نانی نکلی، اور اس کی اصل ماں کہیں کسی گوشے میں اسے یاد کر رہی ہوگی۔



---


حصہ 2: لاکٹ کا راز

لاکٹ واقعی خط کے نیچے رکھا تھا۔ اندر ایک دھندلی سی تصویر تھی، ایک جوان عورت کی جو حسرت بھری آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ حنا نے تصویر کو غور سے دیکھا۔ کچھ نہ کچھ اس چہرے میں خود سے مشابہت محسوس ہوئی۔


اس نے فیصلہ کیا، وہ اپنی اصل ماں کو ڈھونڈے گی۔


اگلے دن وہ نانی اماں کے گاؤں کی پرانی ہمسائی خاتون بی بی زینب کے پاس گئی۔


"بی بی، کیا آپ جانتی ہیں کوئی عورت جو پچیس سال پہلے بچی کو چھوڑ کر گئی ہو؟"


بی بی زینب نے حیرت سے اسے دیکھا، پھر آہستہ سے بولیں:

"بیٹا، تمہاری اماں... شاید وہ رخسانہ تھی۔ وہ ہر روز تمہیں دیکھنے درخت کے پیچھے چھپ کر آتی تھی۔ ایک دن ہم نے اسے دیکھا، اور وہ ہمیں بس اتنا بولی: ‘میری بیٹی خوش تو ہے نا؟’ اور پھر وہ چلی گئی۔"


حنا کا دل دھڑکنے لگا۔



---


حصہ 3: ملاقات

حنا نے رخسانہ کو تلاش کرنے کے لیے گاؤں کے سرکاری ریکارڈ دیکھے۔ کئی دنوں بعد اسے رخسانہ کے بارے میں پتہ چلا — وہ اب شہر میں ایک نرسنگ ہوم میں رہتی تھی، تنہا۔


وہ فوراً وہاں پہنچی۔


نرس نے اسے کمرے تک پہنچایا۔ ایک کمزور سی عورت، سفید بال، مگر وہی آنکھیں جو لاکٹ میں تھیں، ایک کرسی پر بیٹھی آسمان کو دیکھ رہی تھی۔


حنا نے آہستہ سے کہا:

"رخسانہ بی بی؟"


وہ چونک کر مڑی۔

"جی، بیٹا؟"


"میرا نام حنا ہے۔۔۔ آپ کی بیٹی۔۔۔"


رخسانہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ اٹھ نہ سکی، بس ہاتھ بڑھا کر حنا کے چہرے کو چھوا۔


"تم۔۔۔ تم وہی ہو نا۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔"


"کیوں چھوڑا تھا مجھے؟" حنا کے لب لرزنے لگے۔


رخسانہ نے گہری سانس لی:

"تمہارا باپ مر گیا تھا۔ میرے سسرال والوں نے کہا، اگر بچی کو ساتھ رکھو گی تو تمہیں بھی گھر سے نکال دیا جائے گا۔ میں مجبور تھی۔۔۔ لیکن ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب میں نے تمہیں یاد نہ کیا ہو۔۔۔"


حنا خاموشی سے آگے بڑھی، اور رخسانہ کے گلے لگ گئی۔ دونوں ماں بیٹی برسوں کا فاصلہ آنسوؤں سے دھو رہی تھیں۔



---


حصہ 4: اختتام

مہینے گزر گئے۔ حنا نے رخسانہ کو اپنے ساتھ رکھا، اسے ہنسانا سکھایا، اور پہلی بار "ماں" کہنے کا مزہ چکھا۔


آخری خط، جو نانی اماں نے چھوڑا تھا، صرف ایک راز نہیں تھا — وہ ایک نئی زندگی کی کنجی تھا۔


محبت کبھی ختم نہیں ہوتی، چاہے وقت کتنا بھی گزر جائے۔


تبصرے

مشہور اشاعتیں